اب ہم ان قرآنی دلائل کا جائزہ لیں گے جن سے یہ حضرات اپنے اس نظریہ ارتقاء کو کشید کرتے ہیں.

  1. پہلی دلیل سورہ نساء کی پہلی آیت ہے کہ

    اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَاۗءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ۭ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا﴾

اے لوگو!اپنے اس پروردگار سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں نفس واحدہ سے پیدا کیا. پھر اس سے اس کا زوج بنایا پھر ان دونوں سے کثیر مرد اور عورتیں روئے زمین پر پھیلا دیئے. (1:4)

یہ آیت اپنے مطلب میں صاف ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم علیہ السلام اور زوج سے مراد ان کی بیوی حوا ہیں. اور یہی کچھ کتاب وسنت اور آثار سے معلوم ہوتا ہے مگر ہمارے یہ دوست نفس واحد سے مراد پہلا جرثومہ حیات لیتے ہیں اس جرثومہ کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ وہ کٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا. پھر ان میں سے ہر ایک ٹکڑا کٹ کر دو دو ٹکڑے ہوتا گیا. اس طرح زندگی میں وسعت پیدا ہوتی گئی جو بالآخر جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسان تک پہنچی ہے.

یہ تصور اس لحاظ سے غلط ہے کہ آج بھی جراثیم کی افزائش اسی طرح ہوتی ہے یعنی ایک جرثومہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوتا چلا جاتا ہے پھر کسی جرثومہ کو آج تک کسی نے نباتات میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے؟لہذا لامحالہ ہمیں یہی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم علیہ السلام، زوج سے مراد ان کی بیوی ہے اور تولد وتناسل کے ذریعہ ان کی اولاد مرد اور عورتیں روئے زمین پر پھیل گئے.

  1. دوسری دلیل سورہ علق کی ابتدائی دو آیات ہیں.

    اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ

اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم( اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیے جس نے ( کائنات کو) پید اکیا اور انسان کو علق(جما ہوا خون)سے پیدا کیا (1,2:96)

علق کا لغوی مفہوم نر و مادہ کے ملاپ کے بعد نطفہ کا جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کر لینا ہے. کہتے ہیں عَلَّقَتِ الانثیٰ بِالوَلَدِ مادہ حاملہ ہو گئی) المنجد (اور چونکہ یہ جما ہوا خون جونک جیسی لمبوتری شکل اختیار کر لیتا ہے لہذا جونک کو بھی علق کہہ دیتے ہیں. ہمارے یہ کرم فرما اس سے دوسرامعنی یعنی جونک مراد لیتے ہیں اور رحم مادر کی کیفیت قرار نہیں دیتے بلکہ ارتقائی زندگی کے سفر کا و ہ دور مراد لیتے ہیں جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے اور کہتے ہیں کہ انسان انہی جانداروں کی ارتقائی شکل ہے.

رہی یہ بات کہ آیا یہ رحم مادر کا قصہ ہے یا ارتقائے زندگی کے سفر کی داستان ہے تو اس اشکال کو قرآن ہی کی سورہ مومنون کی یہ آیت دور کر دیتی ہے.

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ

سپھر ہم نے نطفہ کو علق بنایا پھر علق کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر انسان کو نئی صورت میں بنا دیا. اللہ بڑی بابرکت ہستی ہے جو سب سے بہتر خالق ہے (14:23)

اب سوال یہ ہے کہ اگر علق سے مراد رحم مادر کا قصہ نہیں بلکہ وہ دور مراد ہے جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے تھے تو یہ بھی بتلانا پڑے گا کہ نطفہ سے ارتقائی سفر کا کون سا دور مراد ہے کیونکہ اللہ نے علق کو نطفہ سے بنایا ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا قرآن کے اولین مخاطب یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم علق سے وہ مفہوم سمجھ سکتے تھے جو یہ حضرات آج کل ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں؟


  1. ان حضرات کی تیسری دلیل سورہ نوح کی آیت

    وَقَد خَلَقَکُم اَطوَاراً

حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا کیا ہے (14:71)

تمام مفسرین نے اطوار سے مراد وہ تخلیقی مراحل لیے ہیں جو رحم مادر میں واقع ہوتے ہیں جبکہ پرویز صاحب اس آیت سے ارتقائے زندگی کے مراحل مراد لیتے ہیں. اس پر بھی وہی سوال پیدا ہوتے ہیں جو دوسری دلیل میں بیان کئے جا چکے ہیں.

  1. چوتھی دلیل سورہ نوح کی یہ آیت ہے.

    وَاللّٰہ اَنبَتَکُم مِنَ الاَرضِ نَبَاتاً

اس کا پرویز صاحب یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ

ہم نے تمہیں زمین سے اگایا، ایک طرح کا اگانا

اور مراد یہ لیتے ہیں کہ انسان نباتات اور حیوانات کے راستہ سے ہوتا ہوا وجود میں آیا ہے.

جہاں تک انسان کا مٹی یا زمین سے پیدا ہونے کا تعلق ہے اس میں تو کسی کو کچھ اختلاف نہیں. اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ انبت کا معنی صرف اگانا ہے یا کچھ اور بھی؟لغوی لحاظ سے یہ لفظ خلق یعنی پیدا کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے، کہتے ہیں نبت ثدی الجاریہ بمعنی لڑکی کے پستان پیدا ہو گے یا ابھر آئے. چنانچہ اکثرمفسرین نے انبت کا معنی پیدا کرنا ہی لکھا ہے پھر اس لفظ کا معنی اچھی طرح پرورش کرنا بھی ہے. جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.

فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّاَنبَتَھَا نَبَاتاً حَسَناً

اللہ تعالیٰ نے مریم کو پسندیدگی سے قبول فرمایا اوراسے اچھی طرح پرورش کیا. (37:3)

لہذا یہ آیت بھی ذو معنی ہونے کی بناء پر نظریہ ارتقا ء کے لیے دلیل نہیں بن سکتی.

  1. پرویز صاحب کی پانچویں دلیل سورہ اعراف کی درج ذیل آیت ہے.

    وَلَقَد خَلَقنٰکُم ثُمَّ صَوَّرنٰکُم ثُمَّ قُلنَا لِلمَلٰئِکَةِ اسجُدُا لِاَدَمَ

یعنی ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری شکل و صورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو. (11:7)

اس سے آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدم علیہ السلام سے پہلے نوع انسانی موجود تھی کیونکہ فرشتوں کو سجدہ کا حکم بعد میں ہوا ہے.

اس کا جواب یہ ہے کہ سورہ اعراف کی ابتدا ء میں دور نبوی کے تمام موجود انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ

اپنے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ وحی کی تابعداری کرو (3:7)

پھر آگے چل کر آدم علیہ السلام، آپ کی بیوی اور ابلیس کا قصہ مذکور ہے تو قرآن میں حسب موقع صیغوں کا استعما ل ہوا ہے. ان آیات کے مخاطب آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد ہے نہ کہ آدم علیہ السلام اور ان کے آباء و اجداد اور بھائی بند، جو پرویز صاحب کے خیال کے مطابق اس جنت میں رہتے تھے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ.

اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو(35:2)

ا گر آدم علیہ السلام اور آدم علیہ السلام کے آباء و اجداد پہلے ہی اس جنت میں رہتے تھے تو صرف آدم علیہ السلام اور اس کی بیوی کو جنت میں رہنے کی ہدایت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے.