تیسری دلیل یہ آیت کریمہ ہے.
قالَ یٰٓـاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ۭ اَسْتَکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ
یعنی اللہ نے فرمایا
اے ابلیس! جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا(75:3)
متعزلین اور پرویزی حضرات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ تسلیم کرنے کے قائل نہیں لہذا وہ لفظ ید کا ترجمہ قوت یا قدرت یا دست قدرت کر لیتے ہیں. اب سوال یہ ہے کہ یہاں بیدی کا لفظ استعمال ہوا ہے. یعنی اپنے دونوں ہاتھوں سے اب اگر ید کا معنی قوت یا قدرت کیا جائے تو اس لفظ کا کیا مفہوم ہو گا کہ جسے میں نے دو قوتوں یا دو قدرتوں سے بنایا ہے؟اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو پانی قدرت اور قوت ہی سے بنایا ہے پھر سیدنا آدم علیہ السلام کے متعلق خصوصی ذکر کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے.