نظریہ ارتقاء کے ابطال پر چوتھی دلیل درج ذیل آیت کریمہ ہے.

اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ

یعنی اللہ کے ہاں عیسی علیہ السلام کی مثال آدم کی سی ہے جسے اللہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر کہا انسان بن جا تو وہ انسان بن گئے(59:3)

9 ہجری میں نجران کے عیسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مدینہ آئے اور مسیح علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کے موضوع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مناظرہ کی ٹھانی. عیسائی بھی سیدنا عیسی علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے قائل تھے اور مسلمان بھی. عیسائیوں کی دلیل یہ تھی کہ جب تم مسلمان یہ تسلیم کرتے ہو کہ عیسی ٰ علیہ السلام کا باپ نہ تھا اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے تو بتاؤ اگر وہ اللہ کے بیتے نہ تھے تو ان کا باپ کون تھا؟اسی دوران یہ آیت نازل ہوئی. یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ اگر باپ کا نہ ہونا ہی اللہ کے بیٹے یا اُلوہیت مسیح کی دلیل بن سکتا ہے تو آدم علیہ السلام الوہیت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کی باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی. لیکن تم آدم علیہ السلام کو الہٰ نہیں کہتے تو مسیح علیہ السلام کیسے الہٰ ہو سکتے ہیں.

مگر آج کے مسلمانوں میں ایک فرقہ ایسا ہے جو آدم علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو تسلیم کرتا ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں مگر سیدنا عیسی ٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو تسلیم نہیں کرتا اور دوسرا مفکرین قرآن کاہے جو نہ عیسی ٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے قائل ہیں اور نہ سیدنا آدم علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے. اس آیت میں ان دونوں فرقوں کا رد موجود ہے، وہ اس طرح کے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو آدم کی پیدائش کے مثل قرار دیا ہے اور اس مثلیت کی ممکنہ صورتیں یہ ہو سکتی ہیں.

  1. دونوں کی پیدائش مٹی سے ہے. یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ تمام انسانوں کی پیدائش مٹی سے ہوئی اس میں آدم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی خصوصیت نہیں.
  2. دونوں کی پیدائش ماں باپ کے ذریعے ہوئی ہو. یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ انسان کی پیدائش کے لیے عام دستور یہی ہے. اوراس میں بھی آدم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی خصوصیت نہیں.
  3. اب تیسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ دونوں کا باپ نہ ہونا تسلیم کیا جائے اور یہی ان دونوں کی پیدائش میں مثلیت کا پہلو نکل سکتا ہے جس میں دوسرے انسان شامل نہیں. اس طرح یہ آیت بھی نظری ارتقاء کو مکمل طور پر مردود قرار دیتی ہے.