اے آفتاب روح و روان جہاں ہے تو
شیرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو
باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا
ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست و بود کا
قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے
ہر شے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے
ہر شے کو تیری جلوہ گری سے ثبات ہے
تیرا یہ سوز و ساز سراپا حیات ہے
وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے
دل ہے خرد ہے روح رواں ہے شعور ہے
اے آفتاب ہم کو ضیائے شعور دے
چشم خرد کو اپنی تجلی سے نور دے
ہے محفل وجود کا ساماں طراز تو
یزدان ساکنان نشیب و فراز تو
تیرا کمال ہستی ہر جاندار میں
تیری نمود سلسلہ کوہسار میں
ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو
زائیدگان نور کا ہے تاجدار تو
نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری
آزاد قید اول و آخر ضیا تری