اے درد عشق ہے گہر آب دار تو
نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
پنہاں تہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفل نو کی نگاہ ہے
آئی نئی ہوا چمن ہست و بود میں
اے درد عشق اب نہیں لذت نمود میں
ہاں خود نمائیوں کی تجھے جستجو نہ ہو
منت پذیر نالہ بلبل کا تو نہ ہو
خالی شراب عشق سے لالے کا جام ہو
پانی کی بوند گریہ شبنم کا نام ہو
پنہاں درون سینہ کہیں راز ہو ترا
اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا
گویا زبان شاعر رنگیں بیاں نہ ہو
آواز نے میں شکوہ فرقت نہاں نہ ہو
یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
غافل ہے تجھ سے حیرت علم آفریدہ دیکھ
جویا نہیں تری نگہ نا رسیدہ دیکھ
رہنے دے جستجو میں خیال بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدہ حکمت پسند کو
جس کی بہار تو ہو یہ ایسا چمن نہیں
قابل تری نمود کے یہ انجمن نہیں
یہ انجمن ہے کشتہ نظارہ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
ہر دل مئے خیال کی مستی سے چور ہے
کچھ اور آجکل کے کلیموں کا طور ہے