قصہ دار و رسن بازی طفلانہ دل
التجائے ارنی سرخی افسانہ دل

یا رب اس ساغر لبریز کی مے کیا ہو گی
جادہ ملک بقا ہے خط پیمانہ دل

ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب
جل گئی مزرع ہستی تو اگا دانہ دل

حسن کا گنج گراں مایہ تجھے مل جاتا
تو نے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانہ دل

عرش کا ہے کبھی کعبے کا ہے دھوکا اس پر
کس کی منزل ہے الہی مرا کاشانہ دل

اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سودا اپنا
دل کسی اور کا دیوانہ میں دیوانہ دل

تو سمجھتا نہیں اے زاہد ناداں اس کو
رشک صد سجدہ ہے اک لغزش مستانہ دل

خاک کے ڈھیر کو اکسیر بنا دیتی ہے
وہ اثر رکھتی ہے خاکستر پروانہ دل

عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے