جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں
آہ مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سر زمیں
آگیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں
ظلمت شب سے ضیائے روز فرقت کم نہیں
تا ز آغوش وداعش داغ حیرت چیدہ است
ہمچو شمع کشتہ در چشمم نگہ خوابیدہ است
کشتہ عزلت ہوں آبادی میں گھبراتا ہوں میں
شہر سے سودا کی شدت میں نکل جاتا ہوں میں
یاد ایام سلف سے دل کو تڑپاتا ہوں میں
بہر تسکیں تیری جانب دوڑتا آتا ہوں میں
آنکھ گو مانوس ہے تیرے در و دیوار سے
اجنبیت ہے مگر پیدا مری رفتار سے
ذرہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا
آئنہ ٹوٹا ہوا عالم نما ہونے کو تھا
نخل میری آرزوؤں کا ہرا ہونے کو تھا
آہ کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا
ابر رحمت دامن از گلزار من برچید و رفت
اندکے بر غنچہ ہائے آرزو بارید و رفت
تو کہاں ہے اے کلیم ذروہ سینائے علم
تھی تری موج نفس باد نشاط افزائے علم
اب کہاں وہ شوق رہ پیمائی صحرائے علم
تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم
شور لیلی کو کہ باز آرایش سودا کند
خاک مجنوں را غبار خاطر صحرا کند
کھول دے گا دشت وحشت عقدہ تقدیر کو
توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو
دیکھتا ہے دیدہ حیراں تری تصویر کو
کیا تسلی ہو مگر گرویدہ تقریر کو
تاب گویائی نہیں رکھتا دہن تصویر کا
خامشی کہتے ہیں جس کو ہے سخن تصویر کا