ایک پرندہ اور جگنو

سر شام ایک مرغ نغمہ پیرا
کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا

چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر
اڑا طائر اسے جگنو سمجھ کر

کہا جگنو نے او مرغ نواریز
نہ کر بے کس پہ منقار ہوس تیز

تجھے جس نے چہک گل کو مہک دی
اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی

لباس نور میں مستور ہوں میں
پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں

چہک تیری بہشت گوش اگر ہے
چمک میری بھی فردوس نظر ہے

پروں کو میرے قدرت نے ضیا دی
تجھے اس نے صدائے دل ربا دی

تری منقار کو گانا سکھایا
مجھے گلزار کی مشعل بنایا

چمک بخشی مجھے آواز تجھ کو
دیا ہے سوز مجھ کو ساز تجھ کو

مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز
جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز

قیام بزم ہستی ہے انھی سے
ظہور اوج و پستی ہے انھی سے

ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی
اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی