سکوت شام میں محو سرود ہے راوی
نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی
پیام سجدے کا یہ زیروبم ہوا مجھ کو
جہاں تمام سواد حرم ہوا مجھ کو
سر کنارہ آب رواں کھڑا ہوں میں
خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں
شراب سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامن شام
لیے ہے پیر فلک دست رعشہ دار میں جام
عدم کو قافلہ روز تیزگام چلا
شفق نہیں ہے یہ سورج کے پھول ہیں گویا
کھڑے ہیں دور وہ عظمت فزائے تنہائی
منار خواب گہ شہسوار چغتائی
فسانہ ستم انقلاب ہے یہ محل
کوئی زمان سلف کی کتاب ہے یہ محل
مقام کیا ہے سرود خموش ہے گویا
شجر یہ انجمن بے خروش ہے گویا
رواں ہے سینہ دریا پہ اک سفینہ تیز
ہوا ہے موج سے ملاح جس کا گرم ستیز
سبک روی میں ہے مثل نگاہ یہ کشتی
نکل کے حلقہ حد نظر سے دور گئی
جہاز زندگی آدمی رواں ہے یونہی
ابد کے بحر میں پیدا یونہی نہاں ہے یونہی
شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا
نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا