عشق نے کر دیا تجھے ذوق تپش سے آشنا
بزم کو مثل شمع بزم حاصل سوز و ساز دے

شان کرم پہ ہے مدار عشق گرہ کشاے کا
دیر و حرم کی قید کیا جس کو وہ بے نیاز دے

صورت شمع نور کی ملتی نہیں قبا اسے
جس کو خدا نہ دہر میں گریہ جاں گداز دے

تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ گہ سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تو سرمہ امتیاز دے

عشق بلند بال ہے رسم و رہ نیاز سے
حسن ہے مست ناز اگر تو بھی جواب ناز دے

پیر مغاں فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
اس میں وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے

تجھ کو خبر نہیں ہے کیا بزم کہن بدل گئی
اب نہ خدا کے واسطے ان کو مئے مجاز دے