ہے عجب مجموعہ اضداد اے اقبال تو
رونق ہنگامہ محفل بھی ہے تنہا بھی ہے
تیرے ہنگاموں سے اے دیوانہ رنگیں نوا
زینت گلشن بھی ہے آرائش صحرا بھی ہے
ہمنشیں تاروں کا ہے تو رفعت پرواز سے
اے زمیں فرسا قدم تیرا فلک پیما بھی ہے
عین شغل مے میں پیشانی ہے تیری سجدہ ریز
کچھ ترے مسلک میں رنگ مشرب مینا بھی ہے
مثل بوئے گل لباس رنگ سے عریاں ہے تو
ہے تو حکمت آفریں لیکن تجھے سودا بھی ہے
جانب منزل رواں بے نقش پا مانند موج
اور پھر افتادہ مثل ساحل دریا بھی ہے
حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے
تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار
تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے
ہے حسینوں میں وفا ناآشنا تیرا خطاب
اے تلون کیش تو مشہور بھی رسوا بھی ہے
لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو
تیری بے تابی کے صدقے ہے عجب بے تاب تو
عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا جسے
مشت خاک ایسی نہاں زیر قبا رکھتا ہوں میں
ہیں ہزاروں اس کے پہلو رنگ ہر پہلو کا اور
سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں
دل نہیں شاعر کا ہے کیفیتوں کی رستخیز
کیا خبر تجھ کو درون سینہ کیا رکھتا ہوں میں
آرزو ہر کیفیت میں اک نئے جلوے کی ہے
مضطرب ہوں دل سکوں ناآشنا رکھتا ہوں میں
گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر
حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں
بے نیازی سے ہے پیدا میری فطرت کا نیاز
سوز و ساز جستجو مثل صبا رکھتا ہوں میں
موجب تسکیں تماشائے شرار جستہ اے
ہو نہیں سکتا کہ دل برق آشنا رکھتا ہوں میں
ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش
آہ وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں
جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے
حسن بے پایاں ہے درد لادوا رکھتا ہوں میں
زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری
عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں
سچ اگر پوچھے تو افلاس تخیل ہے وفا
دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں
فیض ساقی شبنم آسا ظرف دل دریا طلب
تشنہ دائم ہوں آتش زیر پا رکھتا ہوں میں
مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا
نقش ہوں اپنے مصور سے گلا رکھتا ہوں میں
محفل ہستی میں جب ایسا تنک جلوہ تھا حسن
پھر تخیل کس لیے لا انتہا رکھتا ہوں میں
در بیابان طلب پیوستہ می کوشیم ما
موج بحریم و شکست خویش بر دوشیم ما