نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش و سرور
نہ کھینچ نقشہ کیفیت شراب طہور
فراق حور میں ہو غم سے ہمکنار نہ تو
پری کو شیشہ الفاظ میں اتار نہ تو
مجھے فریفتہ ساقی جمیل نہ کر
بیان حور نہ کر ذکر سلسبیل نہ کر
مقام امن ہے جنت مجھے کلام نہیں
شباب کے لیے موزوں ترا پیام نہیں
شباب آہ کہاں تک امیدوار رہے
وہ عیش عیش نہیں جس کا انتظار رہے
وہ حسن کیا جو محتاج چشم بینا ہو
نمود کے لیے منت پذیر فردا ہو
عجیب چیز ہے احساس زندگانی کا
عقیدہ عشرت امروز ہے جوانی کا