قدرت کا عجیب یہ ستم ہے
انسان کو راز جو بنایا
راز اس کی نگاہ سے چھپایا
بے تاب ہے ذوق آگہی کا
کھلتا نہیں بھید زندگی کا
حیرت آغاز و انتہا ہے
آئینے کے گھر میں اور کیا ہے
ہے گرم خرام موج دریا
دریا سوئے بحر جادہ پیما
بادل کو ہوا اڑا رہی ہے
شانوں پہ اٹھائے لا رہی ہے
تارے مست شراب تقدیر
زندان فلک میں پا بہ زنجیر
خورشید وہ عابد سحر خیز
لانے والا پیام برخیز
مغرب کی پہاڑیوں میں چھپ کر
پیتا ہے مئے شفق کا ساغر
لذت گیر وجود ہر شے
سر مست مئے نمود ہر شے
کوئی نہیں غم گسار انساں
کیا تلخ ہے روزگار انساں