تلاش گوشہ عزلت میں پھر رہا ہوں میں
یہاں پہاڑ کے دامن میں آ چھپا ہوں میں
شکستہ گیت میں چشموں کے دلبری ہے کمال
دعائے طفلک گفتار آزما کی مثال
ہے تخت لعل شفق پر جلوس اختر شام
بہشت دیدہ بینا ہے حسن منظر شام
سکوت شام جدائی ہوا بہانہ مجھے
کسی کی یاد نے سکھلا دیا ترانہ مجھے

یہ کیفیت ہے مری جان ناشکیبا کی
مری مثال ہے طفل صغیر تنہا کی
اندھیری رات میں کرتا ہے وہ سرود آغاز
صدا کو اپنی سمجھتا ہے غیر کی آواز
یونہی میں دل کو پیام شکیب دیتا ہوں
شب فراق کو گویا فریب دیتا ہوں