چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں

بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تری پستی
روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں

شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں

جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں

مجھے پھونکا ہے سوز قطرہ اشک محبت نے
غضب کی آگ تھی پانی کے چھوٹے سے شرارے میں

نہیں جنس ثواب آخرت کی آرزو مجھ کو
وہ سوداگر ہوں میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں

سکوں ناآشنا رہنا اسے سامان ہستی ہے
تڑپ کس دل کی یا رب چھپ کے آ بیٹھی ہے پارے میں

صدائے لن ترانی سن کے اے اقبال میں چپ ہوں
تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فرقت کے مارے میں