یوں تو اے بزم جہاں دلکش تھے ہنگامے ترے
اک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی

پا گئی آسودگی کوئے محبت میں وہ خاک
مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحراؤں میں تھی

کس قدر اے مے تجھے رسم حجاب آئی پسند
پردہ انگور سے نکلی تو میناؤں میں تھی

حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم
اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی

میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث
بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی