ہو رہی ہے زیر دامان افق سے آشکار
صبح یعنی دختر دوشیزہ لیل و نہار
پا چکا فرصت درود فصل انجم سے سپہر
کشت خاور میں ہوا ہے آفتاب آئینہ کار
آسماں نے آمد خورشید کی پا کر خبر
محمل پرواز شب باندھا سر دوش غبار
شعلہ خورشید گویا حاصل اس کھیتی کا ہے
بوئے تھے دہقان گردوں نے جو تاروں کے شرار
ہے رواں نجم سحر جیسے عبادت خانے سے
سب سے پیچھے جائے کوئی عابد شب زندہ دار
کیا سماں ہے جس طرح آہستہ آہستہ کوئی
کھینچتا ہو میان کی ظلمت سے تیغ آب دار
مطلع خورشید میں مضمر ہے یوں مضمون صبح
جیسے خلوت گاہ مینا میں شراب خوش گوار
ہے تہ دامان باد اختلاط انگیز صبح
شورش ناقوس آواز اذاں سے ہمکنار
جاگے کوئل کی اذاں سے طائران نغمہ سنج
ہے ترنم ریز قانون سحر کا تار تار