میاں فضل حسین صاحب بیرسٹر ایٹ لاء لاہور کے نام

گو سراپا کیف عشرت ہے شراب زندگی
اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحاب زندگی
موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگی
ہے الم کا سورہ بھی جزو کتاب زندگی
ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں
جو خزاں نادیدہ ہو بلبل وہ بلبل ہی نہیں

آرزو کے خون سے رنگیں ہے دل کی داستاں
نغمہ انسانیت کامل نہیں غیر از فغاں
دیدہ بینا میں داغ غم چراغ سینہ ہے
روح کو سامان زینت آہ کا آئینہ ہے
حادثات غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال
غازہ ہے آئینہ دل کے لیے گرد ملال
غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف خواب سے
ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے
طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے
غم نہیں غم روح کا اک نغمہ خاموش ہے
جو سرود بربط ہستی سے ہم آغوش ہے

شام جس کی آشنائے نالہ یا رب نہیں
جلوہ پیرا جس کی شب میں اشک کے کوکب نہیں
جس کا جام دل شکست غم سے ہے ناآشنا
جو سدا مست شراب عیش و عشرت ہی رہا
ہاتھ جس گلچیں کا ہے محفوظ نوک خار سے
عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے
کلفت غم گرچہ اس کے روز و شب سے دور ہے
زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے
اے کہ نظم دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
کیوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کی منزل تجھے

ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق
عشق کے خورشید سے شام اجل شرمندہ ہے
عشق سوز زندگی ہے تا ابد پائندہ ہے
رخصت محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر
جوش الفت بھی دل عاشق سے کر جاتا سفر
عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں
روح میں غم بن کے رہتا ہے مگر جاتا نہیں
ہے بقائے عشق سے پیدا بقا محبوب کی
زندگانی ہے عدم ناآشنا محبوب کی

آتی ہے ندی جبین کوہ سے گاتی ہوئی
آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتی ہوئی
آئنہ روشن ہے اس کا صورت رخسار حور
گر کے وادی کی چٹانوں پر یہ ہو جاتا ہے چور
نہر جو تھی اس کے گوہر پیارے پیارے بن گئے
یعنی اس افتاد سے پانی کے تارے بن گئے
جوئے سیماب رواں پھٹ کر پریشاں ہو گئی
مضطرب بوندوں کی اک دنیا نمایاں ہو گئی
ہجر ان قطروں کو لیکن وصل کی تعلیم ہے
دو قدم پر پھر وہی جو مثل تار سیم ہے
ایک اصلیت میں ہے نہر روان زندگی
گر کے رفعت سے ہجوم نوع انساں بن گئی
پستی عالم میں ملنے کو جدا ہوتے ہیں ہم
عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
عقل جس دم دہر کی آفات میں محصور ہو
یا جوانی کی اندھیری رات میں مستور ہو
دامن دل بن گیا ہو رزم گاہ خیر و شر
راہ کی ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر
خضر ہمت ہو گیا ہو آرزو سے گوشہ گیر
فکر جب عاجز ہو اور خاموش آواز ضمیر
وادی ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں