قافلہ لوٹا گیا صحرا میں اور منزل ہے دور
اس بیاباں یعنی بحر خشک کا ساحل ہے دور
ہم سفر میرے شکار دشنہ رہزن ہوئے
بچ گئے جو ہو کے بے دل سوئے بیت اللہ پھرے
اس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی
موت کے زہراب میں پائی ہے اس نے زندگی
خنجر رہزن اسے گویا ہلال عید تھا
ہائے یثرب دل میں لب پر نعرہ توحید تھا
خوف کہتا ہے کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل
شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے بے باکانہ چل
بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جاؤں گا کیا
عاشقوں کو روز محشر منہ نہ دکھلاؤں گا کیا
خوف جاں رکھتا نہیں کچھ دشت پیمائے حجاز
ہجرت مدفون یثرب میں یہی مخفی ہے راز
گو سلامت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے
عشق کی لذت مگر خطروں کی جاں کاہی میں ہے
آہ یہ عقل زیاں اندیش کیا چالاک ہے
اور تاثر آدمی کا کس قدر بے باک ہے