رات اور شاعر

رات
کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تو پریشاں
خاموش صورت گل مانند بو پریشاں
تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تو
مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تو
یا تو مری جبیں کا تارا گرا ہوا ہے
رفعت کو چھوڑ کر جو بستی میں جا بسا ہے
خاموش ہو گیا ہے تار رباب ہستی
ہے میرے آئنے میں تصویر خواب ہستی
دریا کی تہ میں چشم گرادب سو گئی ہے
ساحل سے لگ کے موج بے تاب سو گئی ہے
بستی زمیں کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے
یوں سو گئی ہے جیسے آباد ہی نہیں ہے
شاعر کا دل ہے لیکن ناآشنا سکوں سے
آزاد رہ گیا تو کیونکر مرے فسوں سے

شاعر
میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں
چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں
دن کی شورش میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں
عزلت شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں
مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے سناؤں کس کو
تپش شوق کا نظارہ دکھاؤں کس کو
برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے
دیکھنے والی ہے جو آنکھ کہاں سوتی ہے
صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری
آہ اے رات بڑی دور ہے منزل میری
عہد حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو
اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کو
ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں
تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں