اک پیشوائے قوم نے اقبال سے کہا
کھلنے کو جدہ میں ہے شفاخانہ حجاز
ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرہ بے قرار
سنتا ہے تو کسی سے جو افسانہ حجاز
دست جنوں کو اپنے بڑھا جیب کی طرف
مشہور تو جہاں میں ہے دیوانہ حجاز
دارالشفا حوالی بطحا میں چاہیے
نبض مریض پنجہ عیسی میں چاہیے

میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات
پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں
تلخابہ اجل میں جو عاشق کو مل گیا
پایا نہ خضر نے مئے عمر دراز میں
اوروں کو دیں حضور یہ پیغام زندگی
میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں
آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا
رکھتے ہیں اہل درد مسیحا سے کام کیا