فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت حور صحرائی تری قسمت میں تھی
غازیان دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر
یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں
فاطمہ گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے
نغمہ عشرت بھی اپنے نالہ ماتم میں ہے
رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے
ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے
ہے کوئی ہنگامہ تیری تربت خاموش میں
پل رہی ہے ایک قوم تازہ اس آغوش میں
بے خبر ہوں گرچہ ان کی وسعت مقصد سے میں
آفرینش دیکھتا ہوں ان کی اس مرقد سے میں
تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہور
دیدہ انساں سے نامحرم ہے جن کی موج نور
جو ابھی ابھرے ہیں ظلمت خانہ ایام سے
جن کی ضو ناآشنا ہے قید صبح و شام سے
جن کی تابانی میں انداز کہن بھی نو بھی ہے
اور تیرے کوکب تقدیر کا پرتو بھی ہے