شبنم اور ستارے

اک رات یہ کہنے لگے شبنم سے ستارے
ہر صبح نئے تجھ کو میسر ہیں نظارے
کیا جانیے تو کتنے جہاں دیکھ چکی ہے
جو بن کے مٹے ان کے نشاں دیکھ چکی ہے
زہرہ نے سنی ہے یہ خبر ایک ملک سے
انسانوں کی بستی ہے بہت دور فلک سے
کہہ ہم سے بھی اس کشور دلکش کا فسانہ
گاتا ہے قمر جس کی محبت کا ترانہ

اے تارو نہ پوچھو چمنستان جہاں کی
گلشن نہیں اک بستی ہے وہ آہ و فغاں کی
آتی ہے صبا واں سے پلٹ جانے کی خاطر
بے چاری کلی کھلتی ہے مرجھانے کی خاطر
کیا تم سے کہوں کیا چمن افروز کلی ہے
ننھا سا کوئی شعلہ بے سوز کلی ہے
گل نالہ بلبل کی صدا سن نہیں سکتا
دامن سے مرے موتیوں کو چن نہیں سکتا
ہیں مرغ نواریز گرفتار غضب ہے
اگتے ہیں تہ سایہ گل خار غضب ہے
رہتی ہے سدا نرگس بیمار کی تر آنکھ
دل طالب نظارہ ہے محروم نظر آنکھ
دل سوختہ گرمی فریاد ہے شمشاد
زندانی ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد
تارے شرر آہ ہیں انساں کی زباں میں
میں گریہ گردوں ہوں گلستاں کی زباں میں
نادانی ہے یہ گرد زمیں طوف قمر کا
سمجھا ہے کہ درماں ہے وہاں داغ جگر کا
بنیاد ہے کاشانہ عالم کی ہوا پر
فریاد کی تصویر ہے قرطاس فضا پر