خوب ہے تجھ کو شعار صاحب یثرب کا پاس
کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں
جس سے تیرے حلقہ خاتم میں گردوں تھا اسیر
اے سلیماں تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں
وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح
ہوگئی ہے اس سے اب ناآشنا تیری جبیں
دیکھ تو اپنا عمل تجھ کو نظر آتی ہے کیا
وہ صداقت جس کی بےباکی تھی حیرت آفریں
تیرے آبا کی نگہ بجلی تھی جس کے واسطے
ہے وہی باطل ترے کاشانہ دل میں مکیں
غافل اپنے آشیاں کو آ کے پھر آباد کر
نغمہ زن ہے طور معنی پر کلیم نکتہ بیں
سرکشی باہر کہ کردی رام او باید شدن
شعلہساں از ہر کجا برخاستی آنجانشیں