ہاتف نے کہا مجھ سے کہ فردوس میں اک روز
حالی سے مخاطب ہوئے یوں سعدی شیراز

اے آنکہ ز نور گہر نظم فلک تاب
دامن بہ چراغ مہ و اخترزدہ ای باز

کچھ کیفیت مسلم ہندی تو بیاں کر
واماندہ منزل ہے کہ مصروف تگ و تاز

مذہب کی حرارت بھی ہے کچھ اس کی رگوں میں
تھی جس کی فلک سوز کبھی گرمی آواز

باتوں سے ہوا شیخ کی حالی متاثر
رو رو کے لگا کہنے کہ اے صاحب اعجاز

جب پیر فلک نے ورق ایام کا الٹا
آئی یہ صدا پاو گے تعلیم سے اعزاز

آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل
دنیا تو ملی طائر دیں کر گیا پرواز

دیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی
فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر زمیں تاز

مذہب سے ہم آہنگی افراد ہے باقی
دیں زخمہ ہے جمعیت ملت ہے اگر ساز

بنیاد لرز جائے جو دیوار چمن کی
ظاہر ہے کہ انجام گلستاں کا ہے آغاز

پانی نہ ملا زمزم ملت سے جو اس کو
پیدا ہیں نئی پود میں الحاد کے انداز

یہ ذکر حضور شہ یثرب میں نہ کرنا
سمجھیں نہ کہیں ہند کے مسلم مجھے غماز

خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم
دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم

سعدی