یہ سرود قمری و بلبل فریب گوش ہے
باطن ہنگامہ آباد چمن خاموش ہے
تیرے پیمانوں کا ہے یہ اے مئے مغرب اثر
خندہ زن ساقی ہے ساری انجمن بے ہوش ہے
دہر کے غم خانے میں تیرا پتا ملتا نہیں
جرم تھا کیا آفرینش بھی کہ تو روپوش ہے
آہ دنیا دل سمجھتی ہے جسے وہ دل نہیں
پہلوئے انساں میں اک ہنگامہ خاموش ہے
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ بار دوش ہے
جس کے دم سے دلی و لاہور ہم پہلو ہوئے
آہ اے اقبال وہ بلبل بھی اب خاموش ہے