دگرگُوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں مَیں
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
غلام طغرل و سنجر نہیں میں
جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن
کسی جمشید کا ساغر نہیں میں