دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بےباک نہیں ہے

ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے

وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے نم ناک نہیں ہے

کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی
ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے

کب تک رہے محکومی انجم میں مری خاک
یا میں نہیں یا گردش افلاک نہیں ہے

بجلی ہوں نظر کوہ و بیاباں پہ ہے میری
میرے لیے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے

عالم ہے فقط مومن جاں‌باز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہی