نہ ہو طُغیانِ مشتاقی تو مَیں رہتا نہیں باقی
فطرت کو خِرد کے رُوبرو کر
یہ پِیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری!
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ و بو کر
تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر
تاروں کی فضا ہے بیکرانہ
تو بھی یہ مقام آرزو کر
عریاں ہیں ترے چمن کی حوریں
چاک گل و لالہ کو رفو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر