مکانی ہُوں کہ آزادِ مکاں ہُوں
خودی کی خلوتوں میں گُم رہا مَیں
پریشاں کاروبارِ آشنائی
خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں
خدا کے سامنے گویا نہ تھا میں
نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوہ دوست
قیامت میں تماشا بن گیا میں