ہے یہی میری نماز ہے یہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو
صحبت اہل صفا نور و حضور و سرور
سر خوش و پرسوز ہے لالہ لب آبجو
راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو
میرا نشیمن نہیں درگہ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تو شاخ نشیمن بھی تو
تجھ سے گریباں مرا مطلع صبح نشور
تجھ سے مرے سینے میں آتش اللہ‌ھو
تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ
تو ہی مری آرزو تو ہی مری جستجو
پاس اگر تو نہیں شہر ہے ویراں تمام
تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو
پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کر کہ میں
ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو
چشم کرم ساقیا دیر سے ہیں منتظر
جلوتیوں کے سبو خلوتیوں کے کدو
تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے لامکاں میرے لیے چار سو
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں رو برو