کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
سماتی کہاں اس فقیری میں میری
خصومت تھی سلطانی و راہبی میں
کہ وہ سربلندی ہے یہ سربزیری
سیاست نے مذہب سے پیچھا چھٹرایا
چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی
دوئی چشم تہذیب کی نابصیری
یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا
بشیری ہے آئینہ دار نذیری
اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری