یہ گنبد مینائی یہ عالم تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہوا راہی میں بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلہ سینائی میں شعلہ سینائی
تو شاخ سے کیوں پھوٹا میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہ پیدائی اک لذت یکتائی
غواص محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرہ دریا میں دریا کی ہے گہرائی
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
ہے گرمی آدم سے ہنگامہ عالم گرم
سورج بھی تماشائی تارے بھی تماشائی
اے باد بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی سرمستی و رعنائی