جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا یہی ہے اک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
ہر ایک سے آشنا ہوں لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب کسی کا مرکب کسی کو عبرت کا تازیانہ
نہ تھا اگر تو شریک محفل قصور میرا ہے یا کہ تیرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر میء شبانہ
مرے خم و پیچ کو نجومی کی آنکھ پہچانتی نہیں ہے
ہدف سے بیگانہ تیر اس کا نظر نہیں جس کی عارفانہ
شفق نہیں مغربی افق پر یہ جوئے خوں ہے یہ جوئے خوں ہے
طلوع فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ
وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ
ہوائیں ان کی فضائیں ان کی سمندر ان کے جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
جہان نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ