اک رات ستاروں سے کہا نجم سحر نے
آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار
کہنے لگا مریخ ادا فہم ہے تقدیر
ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار
زہرہ نے کہا اور کوئی بات نہیں کیا
اس کرمک شب کور سے کیا ہم کو سروکار
بولا مہ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی
تم شب کو نمودار ہو وہ دن کو نمودار
واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں
کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار
ناگاہ فضا بانگ اذاں سے ہوئی لبریز
وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دل کہسار