یہ آفتاب کیا یہ سپہر بریں ہے کیا
سمجھا نہیں تسلسل شام و سحر کو میں
اپنے وطن میں ہوں کہ غریب الدیار ہوں
ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و در کو میں
کھلتا نہیں مرے سفر زندگی کا راز
لاؤں کہاں سے بندہ صاحب نظر کو میں
حیراں ہے بوعلی کہ میں آیا کہاں سے ہوں
رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کدھر کو میں
جاتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں