ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اک بحر پر آشوب و پر اسرار ہے رومی
تو بھی ہے اسی قافلہ شوق میں اقبال
جس قافلہ شوق کا سالار ہے رومی
اس عصر کو بھی اس نے دیا ہے کوئی پیغام
کہتے ہیں چراغ رہ احرار ہے رومی

جواب
کہ نباید خورد و جو ہمچوں خراں
آہوانہ در ختن چر ارغواں
ہر کہ کاہ و جو خورد قرباں شود
ہر کہ نور حق خورد قرآں شود