اے پیر حرم رسم و رہ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
دے ان کو سبق خود شکنی خود بگری کا
تو ان کو سکھا خارا شگافی کے طریقے
مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا
کہہ جاتا ہوں میں زور جنوں میں ترے اسرار
مجھ کو بھی صلہ دے مری آشفتہ سری کا