یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کہ ذرے ذرے میں ہے ذوق آشکارائی
کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں
نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی
اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند
ہوئے جہاں میں سزاوار کار فرمائی
اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری
اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی
اسی نگاہ سے ہر ذرے کو جنوں میرا
سکھا رہا ہے رہ و رسم دشت پیمائی
نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو
ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی