مخلوقات ہنر

ہے یہ فردوس نظر اہل ہنر کی تعمیر
فاش ہے چشم تماشا پہ نہاں خانہ ذات
نہ خودی ہے نہ جہان سحر و شام کے دور
زندگانی کی حریفانہ کشاکش سے نجات
آہ وہ کافر بیچارہ کہ ہیں اس کے صنم
عصر رفتہ کے وہی ٹوٹے ہوئے لات و منات
تو ہے میت یہ ہنر تیرے جنازے کا امام
نظر آئی جسے مرقد کے شبستاں میں حیات