میرے کُہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں
حقیقتِ ازَلی ہے رقابتِ اقوام
تِری دُعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام
نگاہ پیر فلک میں نہ میں عزیز نہ تو
خودی میں ڈوب زمانے سے نا امید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ