نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زرد پہچانے
نگاہ وہ ہے کہ محتاج مہر و ماہ نہیں
فرنگ سے بہت آگے ہے منزل مومن
قدم اٹھا یہ مقام انتہائے راہ نہیں
کھلے ہیں سب کے لیے غربیوں کے میخانے
علوم تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں
اسی سرور میں پوشیدہ موت بھی ہے تری
ترے بدن میں اگر سوز لا الہ نہیں
سنیں گے میری صدا خانزادگان کبیر
گلیم پوش ہوں میں صاحب کلاہ نہیں