اس دیر کہن میں ہیں غرض مند پجاری
رنجیدہ بتوں سے ہوں تو کرتے ہیں خدا یاد
پوجا بھی ہے بے سود نمازیں بھی ہیں بے سود
قسمت ہے غریبوں کی وہی نالہ و فریاد
ہیں گرچہ بلندی میں عمارات فلک بوس
ہر شہر حقیقت میں ہے ویرانہ آباد
تیشے کی کوئی گردش تقدیر تو دیکھے
سیراب ہے پرویز جگر تشنہ ہے فرہاد
یہ علم یہ حکمت یہ سیاست یہ تجارت
جو کچھ ہے وہ ہے فکر ملوکانہ کی ایجاد
اللہ ترا شکر کہ یہ خطہ پر سوز
سوداگر یورپ کی غلامی سے ہے آزاد