رباعیات
مری شاخِ اَمل کا ہے ثمر کیا
فراغت دے اُسے کارِ جہاں سے
مری شاخ امل کا ہے ثمر کیا
تری تقدیر کی مجھ کو خبر کیا
کلی گل کی ہے محتاج کشود آج
نسیم صبح فردا پر نظر کیا