عالم جہاں بعرضِ بساطِ وجود تھا
جوں صبح، چاکِ جَیب مجھے تار و پود تھا
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر، بہ تنگیِ چشمِ حُسود [1] تھا
بازی خورِ فریب ہے اہلِ نظر کا ذوق
ہنگامہ گرم حیرتِ بود و نمود تھا
عالم طلسمِ شہرِ خموشاں ہے سر بسر
یا میں غریبِ کشورِ گفت و شنود تھا
آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسدؔ
سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا