سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
بقدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی جوتو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا