جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا

اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخیِ ناز
جوہرِ آئینہ کو طوطیِ بسمل باندھا

یاس و امید نے اک عرَبدہ میداں مانگا
عجزِ ہمت نے طِلِسمِ دلِ سائل باندھا

نہ بندھے تِشنگیِ ذوق [1] کے مضموں، غالبؔ
گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

  1. بعض جدید نسخوں میں یہاں "شوق" درج ہے مگر غالب ہی کے کلام سے ثبوت ملتا ہے کہ بعض مقامات پر جہاں آج کل ہم "شوق" استعمال کرتے ہیں، وہاں غالب نے "ذوق" لکھا ۔ (حامد علی خان)