شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
رشتۂٴ ہر شمع خارِ کِسوتِ فانوس تھا

بت پرستی ہے بہارِ نقش بندی ہائے دہر
ہر صریرِ خامہ میں اک نالۂ ناقوس تھا

مشہدِ عاشق سے کوسوں تک جو اُگتی ہے حنا
کس قدر یا رب! ہلاکِ حسرتِ پابوس تھا

حاصلِ الفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو
دل بہ دل پیوستہ، گویا، یک لبِ افسوس تھا

کیا کروں بیماریِ غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خونِ دل، بے منتِ کیموس تھا

کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشۂ [1] غم خانہ میں
دست بر سر، سر بزانوئے دلِ مایوس تھا

  1. نسخۂ مبارک علی میں لفظ ’مے خانہ‘ ہے۔ (اعجاز عبید)