عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا

مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایانِ دست و خنجرِ قاتل نہیں رہا

بر روئے شش جہت درِ آئینہ باز ہے
یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا

وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

دل سے ہوائے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل سوائے حسرتِ حاصل نہیں رہا

[1] جاں دادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے
یاں عرصۂ تپیدنِ بِسمل نہیں رہا

ہوں قطرہ زن بمرحلۂ یاس روز و شب [2]
جُز تارِ اشک جادۂ منزل نہیں رہا

اے آہ میری خاطرِ وابستہ کے سوا
دنیا میں کوئی عقدۂ مشکل نہیں رہا

بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسدؔ [3]
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

  1. یہ تین اشعار نسخہ بھوپال میں ہیں، اس مصرعے میں نسخۂ عرشی میں لفظ ’فرصت گزار‘ ہے (اعجاز عبید)
  2. نسخۂ مبارک علی(اور نسخۂ حمیدیہ) میں ہے ’ہوں قطرہ زن بوادیِ حسرت شبانہ روز‘ (اعجاز عبید)
  3. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: انداز نالہ یاد ہیں سب مجھ کو پر اسد ۔ (جویریہ مسعود)