غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
بے شانۂ صبا نہیں طُرّہ گیاہ کا

بزمِ قدح سے عیشِ تمنا نہ رکھ، کہ رنگ
صید ز دام جستہ ہے اس دام گاہ کا

رحمت اگر قبول کرے، کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا

مقتل کو کس نشاط سے جا تا ہو ں میں، کہ ہے
پُرگُل خیالِ زخم سے دامن نگاہ کا

جاں در" ہوائے یک نگہِ گرم" ہے اسدؔ
پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا